Mitaa Dil Se Gham e Zaad

مٹا دل سے غمِ زادِ سفر آہستہ آہستہ تصور میں چلا طیبہ نگر آہستہ آہستہ



زباں کو تاب گویائی نہیں رہتی مدینے میں صدا دیتی ہے لیکن چشمِ تر آہستہ آہستہ



اتاری راح کی بستی میں جلوؤں کی دھنک اس نے شکستِ شب پہ ہو جیسے سحر آہستہ آہستہ



جگاۓ علم کے سورج سکھائی لفظ کی حرمت کیے وا آگہی کے سارے در آہستہ آہستہ




Get it on Google Play



محبت کا سلیقہ دے دیا وحشی قبائل کو مٹا صدیوں کی رنجش کا اثر، آہستہ آہستہ



صبیحؔ ان کی اور تو کہ جیسے برف کی کشتی کرے سورج کی جانب طےسفر، آہستہ آہستہ

Get it on Google Play

midhah-logo-grey© 2025 Midhah