مٹا دل سے غمِ زادِ سفر آہستہ آہستہ تصور میں چلا طیبہ نگر آہستہ آہستہ
زباں کو تاب گویائی نہیں رہتی مدینے میں صدا دیتی ہے لیکن چشمِ تر آہستہ آہستہ
اتاری راح کی بستی میں جلوؤں کی دھنک اس نے شکستِ شب پہ ہو جیسے سحر آہستہ آہستہ
جگاۓ علم کے سورج سکھائی لفظ کی حرمت کیے وا آگہی کے سارے در آہستہ آہستہ
محبت کا سلیقہ دے دیا وحشی قبائل کو مٹا صدیوں کی رنجش کا اثر، آہستہ آہستہ
صبیحؔ ان کی اور تو کہ جیسے برف کی کشتی کرے سورج کی جانب طےسفر، آہستہ آہستہ