حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے سلام کے لئے حاضر غلام ہو جائے
میں صرف دیکھ لوں اک بار صبح طیبہ کو بلا سے پھر مری دنیا میں شام ہو جائے
تجلیات سے بھر لوں میں اپنا کاسۂ جاں کبھی جو ان کی گلی میں قیام ہو جائے
حضور آپ جو سن لیں تو بات بن جائے حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے
حضور آپ جو چاہیں تو کچھ نہیں مشکل سمٹ کے فاصلہ یہ چند گام ہو جائے
ملے مجھے بھی زبانِ بوصیری و جامی مرا کلام بھی مقبولِ عام ہو جائے
مزا تو جب ہے فرشتے یہ میں کہہ دیں صبؔیح مدحت خیر الانام ہو جائے