Dagh e Furqat Taiba

داغِ فرقت طیبہ قلب مضمحل جاتا کاش گنبد خضریٰ دیکھنے کو مل جاتا



میرا دم نکل جاتا ان کے آستانے پر ان کے آستانے کی خاک میں میں مل جاتا



میرے دل سے دھل جاتا داغِ فرقت طیبہ طیبہ میں فنا ہو کر طیبہ میں ہی مل جاتا



موت لے کے آجاتی زندگی مدینے میں موت سے گلے مل کر زندگی میں مل جاتا



خلد زارِ طیبہ کا اس طرح سفر ہوتا پیچھے پیچھے سر جاتا آگے آگے دل جاتا



دل پہ جب کرن پڑتی ان کے سبز گنبد کی اس کی سبز رنگت سے باغ بن کے کھل جاتا




Get it on Google Play



فرقت مدینہ نے وہ دیئے مجھے صدمے کوہ پر اگر پڑتے کوہ بھی تو ہل جاتا



دل مرا بچھا ہوتا ان کی رہ گزاروں میں ان کے نقش پا سے یوں مل کے مستقل جاتا



دل پہ وہ قدم رکھتے نقش پا یہ دل بنتا یا تو خاک پا بن کر پا سے متصل جاتا



وہ خرام فرماتے میرے دیدہ و دل پر دیدہ میں فدا کرتا صدقے میرا دل جاتا



چشم تر وہاں بہتی دل کا مدعا کہتی آہ با ادب رہتی مونھ میرا سل جاتا



در پہ دل جھکا ہوتا اذن پاکے پھر بڑھتا ہر گناہ یاد آتا دل خجِل خجِل جاتا



میرے دل میں بس جاتا جلوہ زار طیبہ کا داغِ فرقت طیبہ پھول بن کے کھل جاتا



ان کے در پہ اخترؔ کی حسرتیں ہوئیں پوری سائل درِ اقدس کیسے منفعل جاتا



Get it on Google Play

midhah-logo-grey© 2025 Midhah