بادل کو شبنم کیا سمجھے سورج کو شرارہ کیا جانے رحمٰن و رحیم ہے وہ کتنا ، انساں بے چارہ کیا جانے
سب روشنیوں کا خالق وہ ہر مغرب وہ ہر مشرق وہ اس کے انوار کی وسعت کو اک صبح کا تارہ کیا جانے
جو اس سے محبت کرتا ہے جو اس کی عبادت کرتا ہے جو اس سے تجارت کرتا ہے نقصان خسارہ کیا جانے
ایزد، عرش ایزد ہے کہاں ، اونچائی کی سرحد ہے کہا ں گہرائی کی مسند ہے کہاں ، یہ بات کنارہ کیا جانے
اللہ کی شان مظفر سے کیا پوچھتے ہو دنیا والو ملتے ہیں کہاں دنیا کے سرے شاعر آوارہ کیا جانے