زباں محو ثناء ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں مودب التجا ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں
درِ بخشش کھلا ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں برا بھی پارسا گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں
سرِ محشر بھی میزان کرم پر تولا جاۓ گا وہ آنسو جو گرا ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں
کلامِ پاک دیتا ہے گواہی اس حقیقت کی مقدر جاگتا ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں
کبھی خود کو کبھی ان کے کرم کو دیکھتا ہوں میں کہ مجھ سا بے نوا ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں
طلب کرنے سے پہلے گوہرِ مقصود ملتا ہے یہ توقیر گدا ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں
شفاعت کی سند پا کر اٹھا شانِ کریمی سے جو مجرم آگیا ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں
اگر سینے میں ہوتا تو دھڑکنے کی صدا آتی یہ دل کھویا ہواہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں
اسے کیا گرمیء خورشید محشر خاک یاد آۓ کہ جو بیٹھا ہوا ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں
وہیں لے جائیں میرے چارہ گر احسان فرمائیں میرے دکھ کی دوا ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں
جسے خلدِ بریں سے اہلِ دل تعبیر کرتے ہیں وہی آب وہوا ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں
سمجھتا ہے خموشی کی زباں ان کا کرم خالدؔ خاموشی بھی صدا ہے گنبدِ خضریٰ کے ساۓ میں