اپنے دامانِ شفاعت میں چھپاۓ رکھنا میرے سرکار مری بات بناۓ رکھنا
ان کے ہو جاؤ ہراک چیز انہیں سے مانگو اپنے دامن میں نہ احسان پراۓ رکھنا
جب سوا نیزے پہ خورشیدِ قیامت آۓ اپنی زلفوں کے گنہگار پہ ساۓ رکھنا
اسی منصب کا طلب گار ہوں میں بھی آقا خاک ہوں میں مجھے قدموں سے لگاۓ رکھنا
اور مجھ کو نہ کسی غم میں رلانا یا رب اپنے محبوب کے غم میں ہی رلاۓ رکھنا
میں وہ منگتا ہوں سدا خار ملے جس کو پھول کشکول می کانٹوں کی بجاۓ رکھنا
خود کو ڈھونڈیں نہ خیر خود کو ہماری آۓ اپنی الفت میں ہمیں ایسا گماۓ رکھنا
آپ کی یاد نے آباد کیا ہے مجھ کو بندہ پرور میری ہستی کو بساۓ رکھنا
آنکھ اٹھاؤں تو نظر آپ کا روضہ آۓ لوح دل پر بھی یہی نقش جماۓ رکھنا
میں نے مانا کہ نکما ہوں مگر آپ کا ہوں مجھ نکمے کو بھی سرکار نبھاۓ رکھنا
ذرۃ خاک کو خورشید بنانے والے اپنے جلوؤں سے میعے دل کو بساۓ رکھنا
شاید اس راہ سے خالدؔ مرے آقا گزریں اپنی پلکوں کو سرِ راہ بچھاۓ رکھنا