ہم کو اپنی طلب سے سوا چاہیے آپ جیسے ہیں ویسی عطا چاہیے
کیوں کہیں یہ عطا وہ عطا چاہیے آپ کو علم ہے ہم کو کیا چاہیے
اک قدم بھی نہ ہم چل سکیں گے حضور ہرقدم پہ کرم آپ کا چاہیے
آستانِ حبیبِ خدا چاہیے اورکیاہم کواس کےسوا چاہیے
آپ اپنی غلامی کی دے دیں سند بس یہی عزت و مرتبہ چاہیے
اپنے قدموں کا دھون عطا کیجۓ ہم مریضوں کو آبِ شفا چاہیے
عشق میں آپ کے ہم تڑپتے تو ہیں ہر تڑپ میں بلالی ادا چاہیے
درد جامی ملے نعت خالدؔ لکھوں اور انداز احمد رضا چاہیے