یوں تو ہر دور مہکتی ہوئی نیندیں لایا تیرا پیغام مگر خواب نہ بنے پایا
تو جب آیا تو مٹی روح و بدن کی تفریق تو نے انسان کے خیالوں میں لہو دوڑایا
جن کو دھندلا گئے صدیوں کی غریبی کے غبار أن خد و خال کو سونے کی طرح چیکایا
سمٹ آیا ترے اک حرف صداقت میں وہ راز فلسفوں نےجےتا حد گماں الجھایا
راحت جاں ترے خورشید محبت کا طلوع دھوپ کے روپ میں ہے ابر کرم کا سایا
قصرِ مر مر سے شہنشاہ نے از راه غرور تیری کنیا کو جو دیکھا تو بہت شرمایا
کتنا احسان ہے انسان پر تیرا ، کہ اُسے اپنی گفتار کو ، کردار بنانا آیا