مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے تو جو مہر و ماہ کی کائنات کا حسن کار عظیم ہے تو جدید سے بھی جدید ہے تو قدیم سے بھی قدیم ہے
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے
تو حبیب بھی تو حفیظ بھی تو رحیم بھی تو کریم ہے تو بصیر بھی تو نصیر بھی تو کبیر ہے تو حلیم ہے
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے
و مرے خیال کے گلشنوں میں بسا مثال شیم ہے تو مرے یقین کی وسعتوں میں خرام موج قسیم ہے
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے
تو جمال بھی تو جمیل بھی، تو خبیر ہے تو علیم ہے یہ حروف تیری امانتیں یہ ندیم تیرا ندیم ہے
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دےد۔