قطرہ مانگے جو کوئی ، تو اُسے دریا دے دے مجھے کچھ اور نہ دے اپنی تمّنا دے دے
میں تو تجھ سے فقط اک نقش کف پا چاہوں تو جو چاہے تو ،مجھے جنت ماویٰ دے دے
وہ جو آسودگی چاہیں ، انہیں آسودہ کر بے قراری کی لطافت مجھے تنہا دے دے
میں اس اعزاز کے لائق تو نہیں ہوں لیکن مجھ کو ہمسائیگئ گنبد خضرا دے دے
یوں تو جب چاہوں میں تیرا رخِ زیبا دیکھوں عرض یہ ہے کہ مجھے اِذن تماشا دے دے
وہ بھی دیکھیں پَسِ ہر حرف تیری جلوہ گری سب کو تو میری طرح دیده بینا دے دے
غم تو اس دور کی تقدیر میں لکھے ہیں مگر مجھ کو ہر غم سے نمٹ لینے کا یارا دے دے
تب سمیٹوں میں ترے ابر کرم کے موتی میرے دامن کو جو تو وسعت صحرا دے دے
تیری رحمت کا یہ اعجاز نہیں تو کیا ہے قدم اُٹھیں تو زمانہ مجھے رستا دے دے
ؔجب بھی تھک جائے محبت کی مسافت میں ندیم تب ترا حسن بڑھے اور سنبھالا دے دے