کتنا سادہ بھی ہے سچا بھی ہے معیار اُن کا ان کی گفتار کا آئینہ ہے کردار ان کا
ان کو مانگا جو خدا سے تو سبھی کچھ مانگا کیوں طلب گار ہو اوروں کا طلب گار اُن کا
ان کے پیکر میں محبت کو ملی ہے تجسیم پیار کرتا ہے ہر انساں سے ، پرستار اُن کا
وہی ، ظلمات کی رگ رگ میں اترتا ہوا نور میں تو کر لیتا ہوں ہر صبح کو دیدار اُن کا
اے خدا ! اجر کے اعلان سے پہلے سن لے مجھ کو جنت سے سوا سایۃ دیوار اُن کا
پس ہر حرف وہی جلوہ فگن رہتے ہیں میری مانند مرا فن بھی وفادار اُن کا