ہر ایک پھول نے مجھ کو جھلک دکھائی تری ہوا جدھر سے بھی آئی ، شمیم لائی تری
وہ شخص اپنے مقدر کا خود ہے صورت گر کہ جس نے اپنے ارادوں میں لو لگائی تری
کبھی ہوا نہ مرا سامنا اندھیروں سے جدھر بھی دیکھا ، اُدھر روشنی ہی پائی تری
مرے نقوش قدم پر چراغ کیوں نہ جلیں کہ رہنما ہے مری ، شان رہنمائی تری
درونِ سینہ ، مدینہ اُٹھائے پھرتا ہوں کہ ایک پل بھی گوارا نہیں جدائی تری
مجھے تو اپنے کرم کی یہیں بشارت دے کہ روز حشر نہ دیتا پھروں دہائی تری
گواہی دیتا ہے یہ ارتقائے انسانی کہ کام آئی جہاں بھر کو پیشوائی تری
مجھے قسم ہے تری سیرت منزہ کی کہ تاج و تخت پر اک طنز تھی چٹائی تری
یہ سوچ سوچ کے حیران ہیں فرشتے بھی کہاں کہاں شب اسریٰ ہوئی رسائی تری
ندیمؔ کے سے کروڑوں کا ذکر کیا ہے کہ جب بڑے بڑوں کو بھی تسلیم ہے بڑائی تری