علاج گردشِ لیل و نہار تُو نے کیا غبارِ راہ کو ُچھو کر بہار تُو نے کیا
ہر آدمی کو تشخص ملا ترے دم سے جو بے شمار تھے ، ان کو شمار تو نے کیا
اٹھا کے قعر مذلت سے ابن آدم کو وقار تو نے دیا ، باوقار تو نے کیا
کوئی نہ جن کی سنے اُن کی بات تو نے سنی ملا نہ پیار جنہیں ، اُن سے پیار تو نے کیا
اگر غریب کو بخشے حقوق لامحدود تو قصرِ شاہ کو بھی بے حصار تو نے کیا
جنہیں گماں تھے بہت ، اپنی سرفرازی کے بہ یک نگاہ انہیں ، خاکسار تو نے کیا
دل و دماغ کے سب چاند ہو چکے تھے غروب یہ وہ افق ہے ، جسے تاب دار تو نے کیا
جمال قول و عمل ہو کہ حسن صدق و صفا خدا نے جو بھی دیا ، پائیدار تو نے کیا
جب اُن کے نطق کو پہنچی ، ترے یقین کی آنچ جو بے زباں تھے ، انہیں شعلہ بار تو نے کیا
یہ لطف غالبؔ و اقبالؔ تک نہیں محدود ندیمؔ کو بھی صداقت نگار تو نے کیا