یوں منّور ہے یہ دل, غارِ حِرا ہو جیسے اُس کے اندر کوئ مہتاب رہا ہو جیسے
گُنبدِ سبز ہے یوں تازہ بتازہ ھر آن ذہن میں کوئی نیا پھول کِھلا ہو جیسے
دلِ آوارہ کو بے ساختہ آیا ہے قرار چند گھڑیاں تری صحبت میں رہا ہو جیسے
تُجھ سےالفت بھی ہے احساسِ ندامت بھی ہے اپنا حق مُجھ سے کوئی مانگ رہا ہو جیسے
اپنی خواہش سے کوئی بات نہ مُنہ سے نکلی تیرا فرمان ہی فرمانِ خُدا ہو جیسے
اتنے اوصاف کسی ایک بشر میں تو نہیں تیری صُورت میں مصّور بھی چھپا ہو جیسے
سیکڑوں چاند لیے پھرتا پیشانی میں آسماں تیرے ہی کُوچے کا گدا ہو جیسے
اَن گنت صدیوں سے مصروف ثنا ہو اعظمؔ اسی خاطر تخلیق, کیا ہو جیسے