عشق تیرا نہ اگر میرا مسیحا ہوتا میں مریض غم دل کس طرح اچھا ہوتا
تیری نسبت نے سنوارا میرا اندازحیات میں اگر تیرا نہ ہوتا ، سگِ دنیا ہوتا
ہاۓ وہ سر جسے رفعت تری نسبت سے ملی اچھا ہوتا جو ترا نقش کف پا ہوتا
یہ مری اپنی طلب تھی کہ مجھے تو مل جاۓ ورنہ اللہ بھی مل جاتا جو مانگا ہوتا
جس کی تنویر بنی غارِ حرا کا زینت کاش وہ نور مرےدل کا اجالا ہوتا
آنکھ کو دل نہ ملا، دل کو نگاہیں نہ ملیں ورنہ اس چاند کو گھر میں نہ اتارا ہوتا
یاد سےجس کی مہکنےلگےصحراۓخیال پھول وہ دل میں سجا ہوتا تو کیسا ہوتا کوۓ سرکار میں ہوگا کہیں مصروفِ طواف دل اگر سینے میں ہوتا تو دھڑکتا ہوتا
کاش یہ آنکھیں تری راہ کے تنکے چنتی دل ترے شہر کی گلیوں میں سلگتا ہوتا
میں تیرے نام کی دیتا رہا دنیا میں صدا پھر مجھے کیوں غم دنیا،غم عقبیٰ ہوتا
کوئی حسرت بھی تو ہو،کوئی تمنا بھی تو ہو کیوں عطا حوصلۃ عرض تمنا ہوتا
مجھ کو مرغوب نہیں شہد کی نہریں ساقی میرے پینے کو کوئی آگ کا دریا ہوتا
خاک ہوتا تو ہواؤں سے لپٹ کر اعظم آستانِ شہہِ لولاکؐ پہ پہنچا ہوتا