یہ نوازشیں یہ عنائتیں غمِ دوجہاں سے چھڑا دیا غمِ مصطفیٰ تیرا شکریہ مجھے مرنا جینا سکھا دیا
وہ خدا ہے جس کا خیال بھی مری ہر پہنچ سے بلند ہے وہ نبی کا احسن وجمال ہے کہ خدا کا جس نے پتہ دیا
مرا سوزِ لذت زندگی مرے اشک میری بہار ہیں یہ کرم ہے عشق رسول کا مجھے درد نے بھی مزا دیا
کہاں میں کہاں تری آرزو کہاں میں کہاں تری جستجو تو قریب تھا تو قریب ہے جو حجاب تھا وہ اٹھا دیا
تو کریم کتنا عظیم ہے تو رؤف ہے تو رحیم ہے کوئی بھیک مانگنے آگیا تو ضرورتوں سے سوا دیا
جو ملال میرا تھا تمہیں اس کا کتنا خیال تھا کہ اجڑ گیاتھا دیارِدل اسےتم نےآکےبسا دیا
میں ہوں اپنے حال پہ مطمئن میں کسی کوکیسے بتاؤں گا یہ معاملات ہیں راز کے مجھے ان کے عشق نے کیا دیا
وہ گھڑی بھی آۓ کہ خواب میں وہ دکھائیں اپنی تجلیاں میں کہوں کہ آج حضور نے مرا بختِ خفتہ جگا دیا
یہ تمہارا خالدؔ بے نوا ہے سرور وکیف کا واسطہ اسے ڈھونڈنے لگے میکدے اسے کیسا جام پلا دیا