وہ کمال حسنِ حضور ہے کہ گمان نقش جہاں نہیں یہی پھول خالد سےدورہے یہی شمع ہےکہ دھواں نہیں
دوجہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانئِ دل و جاں نہیں کہوکیاہےوہ جویہاں نہیں مگراک نہیں کہ وہ ہاں نہیں
میں نثار تیرےکلام پرملی یوں توکس کو زباں نہیں وہ سخن ہےجس میں سخن نہ ہووہ بیاں ہےجس کابیاں نہیں
بخدا خدا کا یہی ہےدر نہیں اور کوئی مفرمقر جووہاں سےہویہیں آکےہوجویہاں نہیں تووہاں نہیں
ترےآگےیوں ہیں دبےلچےفصحاءعرب کےبڑےبڑے کوئی جانےمنہ میں زباں نہیں،بلکہ جسم میں جاں نہیں
وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سےقریب ہیں کوئی کہہ دو یاس و امید سےوہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں
یہ نہیں خلد نہ ہونِکو وہ نکوئی کی بھی ہے آبرو مگراےمدینہ کی آرزوجسےچاہےتووہ سماں نہیں