اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نورِ باری حجاب میں ہے زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
جلی جلی بوسےاس کی پیدا ہےسوزشِ عشقِ چشم والا کباب آہو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب ہے
انہیں کی بومایہء سمن ہے انہیں کا جلوہ چمن چمن ہے انہیں سے گلشن مہک رہےہیں انہیں کی رنگت گلاب میں ہے
تری جلومیں ہے ماہِ طیبہ ہلال ہر مرگ و زندگی کا حیات جاں کارکاب میں ہے ممات اعدا کا ڈاب میں ہے
کھڑے ہیں منکر نکیر سرپر نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور بتادوآ کر میرے پیمبر کہ سخت مشکل جواب میں ہے
خداۓ قہار ہے غضب پر کھلےہیں بدکاریوں کے دفتر بچالو آکر شفیع محشر تمہارا بندہ عزاب میں ہے
کریم ایسا ملا کہ جس کے کھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے بتاؤ کہ اے مفلسو کہ پھر کیوں تمہارا دل اضطراب میں ہے
کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیم بے قدر کو نہ شرما تو اور رضا سے حساب لینا رضا بھی کوئی حساب میں ہے