وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جو ترے در یار پھرتے ہیں دربدر یوں ہی خوار پھرتے ہیں
آہ کل عیش تو کئے ہم نے آج وہ بے قرار پھرتے ہیں
ان کے ایما سے دونوں باگوں پر خیلِ لیل و نہار پھرتے ہیں
ہر چراغ مزار پر قدسی کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں مانگتے تاجدار پھرتے ہیں
جان ہیں جان کیا نظر آئے کیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں دشت طیبہ کے خار پھرتے ہیں
لاکھوں قدسی ہیں کام خدمت پر لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں
ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں
بائیں رستے نہ جا مسافر سن مال ہے راہ مار پھرتے ہیں
جاگ سنسان بن ہے رات آئی گرگ بہر شکار پھرتے ہیں
نفس یہ کوئی چال ہے ظالم جیسے خاصے بجار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں