رُخ سے کاکَل ہٹا دیا تونے سب کو بے خود بنا دیا تونے
شب کو ملنے کی دے کے اِک امید سب کو شب ساری جگا دیا تو نے
رُخ زیبا کی اک جھلک سے حبیب رات کو دن بنا دیا تونے
کوئی ارمان اب نہیں باقی خاک میں سب ملا دیا تونے
نہ رہی کچھ خبر سر و پا کی جام ایسا پلا دیا تونے
میری باتوں پہ لوگ ہنستے ہیں کیا تماشا بنا دیا تونے
تاقیامت کبھی نہ اچھا ہو روگ ایسا لگا دیا تونے
کوئی آواز اب نہیں بھاتی راگ ایسا سُنا دیا تونے
اپنے چہرے ایک درشن میں مجھ کو کیا کیا دیکھا دیا تونے
کچھ نہیں یاد اب تو عَرَبی کو یاد جو تھا بھلا دیا تونے