چھڑا دیتی ہے فکرِ غیر سے تاثیرِ میخانہ ملی عرش کی زنجیر سے زنجیرِ میخانہ
پڑھو بادَہ گسارَو ان نمازِ خود فراموشی ہوئی ہے شیشَۂ مے سے، بلند تکبیرِ میخانہ
کھڑا ہے جھومتا کوئی پڑا ہے لوٹتا کوئی عجب قدسی صِفت ہے میکشو تقدیرِ میخانہ
نہ دے مینا، نہ دے ساغر، مجھے اس کی نہیں حاجت نگاہِ مست کافی ہے تری اے پیرِ میخانہ
گنہ گاروں میں مئے عشقِ حق تقسیم ہوتی ہے سلامت با کرامت یا الٰہی، میرِ میخانہ