من موہن نے روپ نکالا، اُس پہ فدا گھر بار لاگ لگی ہے، آگ لگی ہے، جینا ہے دُشوار
رنگ شہابی، نین گلابی، مستانہ رفتار سارا جگت ہے اُس پر قرباں اس پر جان نثار
جان کے کیوں انجان بنے ہو میں ہوں بڑی دُکھیار تجھ بن بابَل کوئی نہیں ہے بیری ہے سنسار
تجھ پہ اپنا تن من واروں پھونک دوں تجھ پر رَین بے کج ہوں دیوانی توری پیت گلے کا ہار
کس کا روپ بھرا ہے تم نے، جو بن کس کا دھارا ہے میں کیا تجھ سے عشق کروں، بھگوان کو تجھ سے پیار
سایہ بن کر ساتھ رہوں گی، تمرے سَگن دن رات کروں گی تورے پھبن پر ہوں گی تڑپت اور چرن پروار
ترپت ترپت عمر گجاری، ہونے لگی اب شام ایک نجریا تک لے مجھ کو، سن لے حالِ زار
تم بن چین ملا نہ کبھو بھی، کَٹھن کٹی موری رات کب سے سجریا سونی پڑی ہے اب آ جا دلدار
جیسے جلے ہے بَن کر لکڑی، ایسے جلتی ہوں جان چلی ہے بَن کر آنسو، تھام لے اے غم خوار
تیرے دوارے آن پڑی ہوں تجھ پہ نجریا باندھ کھڑی ہوں پھنسی بَھنور میں موری نیّا پار کرو سرکار