راه گم کرده مسافر کا نگہباں تو ہے افق باں پر مثال مِہ تاباں تو ہے
تو جو میرا ہے تو میں بے سروساماں ہی بھلا لِلّٰهِ الحَمد ، کہ میرا سروساماں تو ہے
مجھ کو کیا علم کہ کس طرح بدلتی ہیں رُتیں جب مرے دشت خزاں پر بھی گُل افشاں تو ہے
اُس خدا سے مجھے کیسے ہو مجال انکار جس کے شہ پارہ تخلیق کا عنواں تو ہے
اپنے ہر عزم کی تکمیل پر ایماں ہے مرا پسِ ہر عزم اگر سلسلہ جنباں تو ہے
تیرے دم سے ہمیں عرفان خداوند ملا نوع انساں پر خداوند کا احساں تو ہے
یہ بتانے کو کہ با وزن ہے انسان کی ذات دستِ یزداں نے جو بخشی ہے ، وہ میزاں توہے
خاک میں آج بھی ہے گونج ، ترے قدموں کی اور افلاک کی وسعت میں خراماں تو ہے
تو نے فاقہ بھی کیا ، اپنا گریباں بھی سِیا اور پھر ذات الہی کا بھی مہماں تو ہے
تیرا کردار ہے احکام خدا کی تائید چلتا پھرتا ، نظر آتا ہوا قرآں تو ہے
رنگ کی قید نہ قدغن کوئی نسلوں کی یہاں جس کے در سب پر کھلے ہیں وہ دبستاں تو ہے
میرے نقاد کو شاید ابھی معلوم نہیں میرا ایماں ہے مکمل ، مرا ایماں تو ہے