پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے
دل نکل جانے کی راہ ہے آہ کن آنکھوں سے وہ ہم سے پیاسوں کےلیے دریا بہاتے جائیں گے
ہاں چلو حسرت زیادہ سنتے ہیں وہ دن آج ہے تھی خبر جس کی کہ وہ جلوہ دکھاتے جائیں گے
کچھ خبر بھی ہے فقیرو آج وہ دن ہےکہ وہ نعمتِ خلد اپنے صدقے میں لٹاتے جائیں گے
لو وہ آۓ مسکراتے ہم اسیروں کی طرف خرمنِ عصیاں پہ اب بجلی گراتے جائیں گے
سوختہ جانوں پہ وہ پُرجوش رحمت آۓ آبِ کوثر سےلگی دل کو بجھاتے جائیں گے
حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائش مولا کی دھوم مثلِ فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے
خاک ہو جائیں عدو جل کر مگرہم تو رضاؔ دم میں جب تک دم ہے ذکراُن کا سناتے جائیں گے