نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا ساتھ ہی منشئ رحمت کا قلمدان گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دھیان گیا میرے مولا میرے آقا تیرے قربان گیا
آہ وہ آنکھ کہ ناکام تمنا ہی رہی ہاۓوہ دل جو تیرےدرسےپُرارمان گیا
دل ہےوہ دل جو تیری یاد سے معمور رہا سر ہےوہ سرجو تیرےقدموں پہ قربان گیا
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
اور تم پر میرے آقا کی عنایت نہ سہی نجدیو کلمہ پڑھانےکا بھی احسان گیا
آج لےاُن کی پناہ آج مدد مانگ اُن سے پھرنہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
اُف رے منکریہ بڑھا جوشِ تعصب آخر بھیڑ میں ہاتھ سے کمبخت کےایمان گیا
جان و دل ہوش وخردسب تو مدینے پہنچے تم نہیں چلتے رضاؔ سارا تو سامان گیا