پسِ مثرگاں حضوری کی دعائیں رقص کرتی ہیں درودوں کی لہو میں فاختائیں رقص کرتی ہیں
میں جب اشکوں سے لکھتا ہوں عریضہ ان کی خدمت میں ورق کو چوم کر بھیگی ہوائیں رقص کرتی ہیں
حصارِ آرزو میں شام ہوتے ہی تڑپتا ہوں چراغِ دیدۂ تر میں وفائیں رقص کرتی ہیں
نہا جاتا ہے ہر حرفِ دعا رحمت کی بارش میں نبی کے ہاتھ میں آ کر عطائیں رقص کرتی ہیں
لٹاتے ہیں سخا کی رم جھمیں وہ دونوں ہاتھوں سے بہاریں تو بہاریں ہیں، خزائیں بھی رقص کرتی ہیں
اترتے ہیں فرشتے جام لے کر آبِ کوثر کے درِ عالی پہ جب تشنہ ندائیں رقص کرتی ہیں
مدینے کے گلی کوچوں میں جب ملتا ہے بن مانگے سرِ دربار جھک جھک کر صدائیں رقص کرتی ہیں