نہیں ہے دعویٰ مجھے کوئی پارسائی کا سہارا بس ہے ترے در سے آشنائی کا
تمہارے چاہنے والوں میں کمتریں ہوں مگر مری جبیں پہ نہیں داغ بے وفائی کا
امیر سارے جہاں کے اسے سلام کریں ہے جس کےہاتھ میں کاسہ تری گدائی کا
ترے کرم نے کیا سب سے بےنیاز مجھے نہیں ہے خوف زمانے کی کج ادائی کا
جہاں پہ اور دوا کوئی کارگر نہ ہوئی اثر پڑا ہے ترے نام کی دھائی سے
ظہوری روز بالا کےمجھےوہ سنتےہیں صلہ ملا ہے مجھےتیری خوش نوائی کا