میری پہچان ہے سیرت اُن کی میرا ایمان محبت اُن کی
دیکھ کر غارِ حرا سوچتا ہوں کتنی بھرپور تھی خلوت اُن کی
پتھروں میں بھی لہو دوڑ گیا اس قدر عام تھی رحمت اُن کی
آج ہم فلسفہ کہتے ہیں جسے وہ مساوات تھی عادت اُن کی
فتح مکہ میرے دعوے کی دلیل عدل کی جان عدالت اُن کی
ارتقا اس سے اجازت مانگے اُن کی ہو جاۓ جو اُمت اُن کی
میں کہ راضی به رضائے رب ہوں کوئی حسرت ہے تو حسرت ان کی
وقت اور فاصله برحق لیکن میرا فن کرتا ہے بعیت اُن کی
میرا معیار غزل خوانی ہے حرف ساده میں بلاغت ان کی
نعت میری ہے ، اشارہ اُن کا پھول میرے ہیں تو نگہت ان کی
میں کہ ہر حال میں ہوں شکر یہ طب کوئی حاجت ہے تو حاجت ان کی
کبریائی پر کروں غور ، ندیم اور تکتا رہوں صورت ان کی