میں خود بھی، قلم بھی مرا، انوار میں گم ہیں طیبہ کے خنک سے در و دیوار میں گم ہیں
جتنے بھی تخیل کے پرندے تھے فضا میں توصیفِ پیمبرؐ کے چمن زار میں گم ہیں
خوشبو ہے درودوں کی مرے گھر کا مقدر آقا جیؐ ، کنیزیں شبِ بیدار میں گم ہیں
شایانِ نبیؐ شعر کوئی ہو نہیں پایا مدحت کے مضامین لبِ اظہار میں گم ہیں
اب کلکِ ثنا نور بھرے لفظ سمیٹے انوارِ معانی مرے افکار میں گم ہیں
آقا ﷺ کے شب و روز کے مکتب میں پڑھاہے خورشید عمل سیر و کردار میں گم ہیں
بچّو! دمِ رخصت مرے، کہنا یہ اَجل ہے ابّو تو ابھی مدحتِ سرکار ﷺ میں گم ہیں
تصویر بڑی گنبدِ حضریٰ کی چھپی ہے سو آنکھیں سبھی آج کے اخبار میں گم ہیں
مانگوں درِ آقاﷺ پہ مَیں کیا؟ ہوش نہیں ہے اہدافِ طلب گرمیِ بازار میں گم ہیں
محشر کی گھڑی سر پہ کھڑی ہے سرِ مقتل ہم لوگ مگر جبّہ و دستارمیں گم ہیں
چمکے مری قسمت کا ستارا بھی کسی شب آنکھوں کےدیےحسرتِ دیدار میں گم ہیں
کشتی مری بے سمت رواں ہے، مرے آقاﷺ امید کے ساحل ابھی منجدھار میں گم ہیں
ہیں نقشِ کفِ پاۓ نبیؐ کے متلاشی یہ ارض و سما سید ابراؐرمیں گم ہیں
قرآں کے سمندر میں اترتے ہی نہیں ہیں اربابِ نظر لفظ کی تکرار میں گم ہیں
آقا جیؐ ، ریاضؔ آپؐ کا شرمندہ بہت ہے پچھتاوے کےدن چشمِ گناہگار میں گم ہیں