کیوں نہ ہو بہر لمحہ جستجو مدینے کی زندگی کا حاصل ہے آرزو مدینے کی آرزو خدا کردے سرخرو مدینے کی
جس کو جو بھی ملتا ہے ان کےدر سے ملتا ہے بٹ رہی ہیں خیراتیں چار سُو مدینے کی
ہم مدینہ گھوم آۓ جالیوں کو چوم آۓ جب کسی نے چھیڑی ہے گفتگو مدینے کی
غمزدوں کو غم اپنے یاد ہی نہیں رہتے جب بہار ہوتی ہے روبرو مدینے کی
وہ دیارِ خواجہ ہو یا درِ فرید الدّین ہرطرف تجلی ہے ہو بہو مدینے کی
تیرگی میں رہ کربھی روشنی میں رہتا ہے جس کے دل میں گھر کر لے آرزو مدینے کی
اس لۓ بساتے ہیں گُل کو وگ دامن میں ہے بسی ہوئی خالدؔ گُل میں بُو مدینے کی