کاش در پہ ترے میری بھی رسائی ہوتی دور مجھ سے تری دیرینہ جدائی ہوتی
ایک مدت سے مرے دل میں تمنا یہ رہی سامنے روضے کے محفل بھی سجائی ہوتی ذکر سنتے ہی وضو کر کے وہیں بیٹھ گیا کاش طیبہ کی اذاں مجھکو سنائی ہوتی
اتنا بے چین زیارت کے لیے ہوں آقا اپنے در کی بھی جھلک مجھ کو دکھائی ہوتی
خوش نصیبی ہے جو پلتے ہیں ترے قدموں میں میری قسمت میں ترے در کی گدائی ہوتی
لمحہ ملتا جو حذیفہ کو تری قربت کا سر جھکائے ہوئے یہ نعت سنائی ہوتی