جنہیں خلق کہتی ہے مصطفیٰ میرا دِل اُنہیں پہ نثار ہے مرے قلب میں ہیں وہ جلوہ گر کہ مدینہ جن کا دِیار ہے
ہے جہاں میں جنکی چمک دَمک ہے چمن میں جنکی چہل پہل وہ ہی اِک مدینہ کے چاند ہیں سب انہیں کے دَم کی بہار ہے
وہ جھلک دِکھا کے چلے گئے میرے دل کا چین بھی لے گئے میری رُوح ساتھ نہ کیوں گئی مجھے اب تو زندگی بار ہے
وہی موت ہے وہی زندگی جو خدا نصیب کرے مجھے کہ مرے تو ان ہی کے نام پر جو جئے تو ان پہ نثار ہے
وہ ہے آنکھ جس کے یہ نور ہیں وہ ہے دل یہ جس کے سرور ہیں وہ ہی تن ہے جس کی یہ روح ہیں وہ ہے جاںجو اُن پہ نثار ہے
جوکرم سے اپنے شہِ اُمم رکھیں مجھ غریب کے گھر قدم مرے شاہ کی نہ ہو شان کم کہ گدا پر ان کا تو پیار ہے
وَلے اس غریب کا خُم کدہ بنے رشکِ خلد بریں شہا کرے ناز اپنے نصیب پر بنے شاہ وہ جو گنوار ہے
دَمِ نزع سالکِؔ بے نوا کو دِکھانا شکلِ خدا نما کہ قدم پہ آپ کے نکلے دَم بس اسی پہ دَارو مدار ہے