حیات اسوۂ سرکار میں اگر ڈھل جائے ہر ایک سانس کے اندر چراغ سا جل جائے
میں ریزہ ریزہ ہُو تو اُسی کی یاد آئی جہاں پہنچ کے نہ کوئی بھی نامکمل جائے
طلوع صبح کا منظر ہو میرے اندر بھی صبا جو روح پہ اُس کا غبار پامل جائے
کوئی دُکھی جو تہِ دل سے نام لے اس کا پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دے بلا ٹل جائے
گیا جو شیشۂ افلاک سے نظر کی طرح صدا بھی اُس کی ابد کی طرف مسلسل جائے
وہ دشت میں ہو تو بن جائیں انگلیاں لہریں جو دھوپ میں وہ چلے اُس کے ساتھ بادل جائے
رہے لبوں پہ ہزاروں دعاؤں کی یہ دعا کہ حج کو جائے مظفرؔ بھی اور پیدل جائے