دنیا ہے ایک دشت ، تو گلزار آپ ہیں اس تیرگی میں ، مطلع انوار آپ ہیں
یہ بھی ہے سچ کہ آپ کی گفتار ہے جمیل یہ بھی ہے حق ، کہ صاحب کردار آپ ہیں
ہو لاکھ آفتاب قیامت کی دھوپ تیز میرے لیے تو سایۃ دیوار آپ ہیں
یہ فحر کم نہیں کہ میں ہوں جس کی گردِ رہ اُس قافلے کے قافلہ سالار آپؐ ہیں
دربار شہ میں بھی میں اگر سرکشیدہ ہوں اس کا ہے یہ سبب مرا پندار آپ ہیں
مجھ کو کسی سے حاجتِ چارہ گری نہیں ہر غم مجھے عزیز کہ غم خوار آپؐ ہیں
مجھ پر بہ جرم غربت و دامن دریدگی سب لوگ خندہ زن ہیں تو تو لبار آپ ہیں
انسان مال و زر کے جنوں میں ہیں مبتلا اس حشر میں ندیم کو درکار آپ ہیں