در نبی کی طرف چلا ہوں بدن پہ چادر ہے آنسوؤں کی لہو میں لذت ہے راستوں کی بغیر خوشبو مہک رہا ہوں درِ نبی کی طرف چلاہوں
سکون آمیز بے قراری ہے میری یکسوئیوں پہ طاری چلی براقِ کشش پہ لے کر رسول اکرم کی غم گساری رسائی ہے بخت نارسا میں سِرا ہے اِک دست مصطفیٰ میں میں ڈور کا دوسرا سِرا ہوں درِ نبی کی طرف چلاہوں
طواف کعبی تھا فرض مجھ پر درِ نبی کا ہے قرض مجھ پر سمٹ کے سایہ فگن ہوا ہے جہان کا طول و عرض مجھ پر شریک رفتار جو رہے ہیں وہ فاصلے ختم ہو رہے ہیں میں آج سے اپنی ابتدا ہوں درِ نبی کی طرف چلاہوں
دکھائی دینے لگا مدینہ مثالِ در کھُل رہا ہے سینہ ہوائیں حوروں کے لمس جیسی فضائیں خلد بریں کا زینہ کھلے ہوئے بازوؤں سی راہیں ہر اک مسافر کو اتنا چاہیں کہ ان کی چاہت پر مر مٹا ہوں درِ نبی کی طرف چلا ہوں
یہ ساعت قیمتی بھی آئی کہ حاضری کو چلی جدائی دھڑک رہے ہیں حواسِ خمسہ لرز رہی ہے برہنہ پائی بہشت عالم ہے یہ علاقہ قدم قدم نقش پائے آقا زمین کے شیشے میں دیکھتا ہوں درِ نبی کی طرف چلاہوں