آہ! مَدنی قافِلہ اب جا رہا ہے لَوٹ کر کوئی دل تھامے کھڑا ہے کوئی ہے باچشمِ تر
سنّتوں کی تربیَت کے قافِلوں کے قَدْر داں جب پلٹتے ہیں گھروں کو روتے ہیں وہ پھوٹ کر
کس قَدَر خوش تھے نکل کر چلد ئے تھے گھر سے جب اب اُداسی چھا رہی ہے ہائے !اپنے قلب پر
فِکْر تھی گھر کی نہ کوئی فکر کاروبار کی لطف خو ب آتا تھا ہم کو مسجِدوں میں بیٹھ کر
جا تے ہی دنیا کے جھگڑے پھر گلے پڑ جائیں گے کیا کریں ناچار ہیں قابو نہیں حالات پر
باجماعت سب نَمازیں اور تہجُّد کے مزے اتنی آسانی سے پھر مل جا ئیں گے کیا جا کے گھر
یاخدا! نکلوں میں مدنی قافلوں کیساتھ کاش سنّتوں کی تربیّت کے واسطے پھر جلد تر
ہائے! سارا وقت میرا غفلتوں میں کٹ گیا آہ! کب ہو گا مُیَسَّر پھر مبارک یہ سفر
مَدنی ماحول اور مَدنی قافِلے والوں کی کچھ بھی نہ کی ہے قدَرْ ہا ئے! ہوں میں ناداں کس قَدَر
مسجدوں کا کچھ ادب ہا ئے! نہ مجھ سے ہو سکا از طفیلِ مصطفٰے فرما الٰہی درگزر
آہ! شیطاں ہر گھڑی ہر وقت غالب ہی رہا عادتِ عصیاں نے رکھ دی توڑ کر ہائے! کمر
خوب خدمت سنّتوں کی ہم سدا کرتے رہیں مَدنی ماحول اے خدا ہم سے نہ چھو ٹے عمر بھر
اِس عَلاقے والے سارے بھائیوں کا شکریہ ساتھ جو دیتے رہے ہیں قافلے کا سر بسر
سنّتوں کی تربیت کے واسطے نکلا تھا میں ہا ئے پر سوتا رہا غفلت کی چادر تان کر
یارسولَ اللہ اپنے در پہ اب بلوایئے ہو نصیب آقاہمیں میٹھے مدینے کا سفر
ہے دعا عطّارؔ کی اس کی ہو حتمی مغفرت قافلوں میں عمر بھر کرتا رہے جو بھی سفر