سلسلہ آہ! گناہوں کا بڑھا جاتا ہے نِت نیا جرم ہر اک آن ہوا جاتا ہے
قلب پتھر سے بھی سختی میں بڑھا جاتا ہے خَول پر خول سیاہی کا چڑھا جاتا ہے
نفس و شیطان کی ہر آن اطاعت پر دل آہ! مائل مِرے اللہ ہوا جاتا ہے
لاؤں وہ اشک کہاں سے جو سیاہی دھوئیں گندگی میں مرا دل حد سے بڑھا جاتا ہے
عارِضی آفتِ دنیا سے تو ڈرتا ہے دل ہائے بے خوف عذابوں سے ہوا جاتا ہے
یہ ترا جسم جو بیمار ہے تشویش نہ کر یہ مَرَض تیرے گناہوں کو مٹا جاتا ہے
اصل برباد کُن اَمراض گناہوں کے ہیں بھائی کیوں اِس کو فراموش کیا جاتا ہے
اصل آفت تو ہے ناراضیٔ ربِّ اکبر اس کو کیوں بھول کے بر باد ہوا جاتا ہے
المدد یاشَہِ اَبرار مدینے والے قلب سے خوفِ خدا دور ہوا جاتا ہے
آہ!دولت کی حفاظت میں توسب ہیں کوشاں حِفظ ایماں کا تصوُّر ہی مٹا جاتا ہے
یاد رکّھو! وُہی بے عقل ہے اَحمق ہے جو کثرتِ مال کی چاہت میں مرا جاتا ہے
اپنی الفت کا مجھے جام پلادو ساقی قلب دنیا کی محبت میں پھنسا جاتا ہے
امتحاں کے کہاں قابِل ہوں میں پیارے اللہ بے سبب بخش دے مولیٰ ترا کیا جاتا ہے
آہ! جاتی نہیں ہے عادتِ یاوہ گوئی وقت، انمول یوں برباد ہوا جاتا ہے
آہ! آنسو غمِ دنیا میں بہے جاتے ہیں دل بھی دنیا کے غموں ہی میں جلا جاتا ہے
اپنا غم ایسا عطا کر کہ کلیجا پھٹ جائے دیکھ کے سب کہیں دیوانہ چلا جاتا ہے
ولولہ سنّتِ محبوب کا دے دے مالِک آہ! فیشن پہ مسلمان مرا جاتا ہے
تیرے دیوانے مدینے کے لیے ہیں بیتاب جانے کب اِذن، مدینے کا دیا جاتا ہے
آخِری وقت ہے آجا مِرے مَدنی آجا آہ! مجرِم ترا دنیا سے شہا جاتا ہے
جلوۂ پاک دکھا جا مرے مَدنی آجا آہ مجرِم ترا دنیا سے شہا جاتا ہے
مجھ کو اب کلمہ پڑھا جا مرے مَدنی آجا آہ مجرِم ترا دنیا سے شہا جاتا ہے
مجھ کو قدموں سے لگاجا مِرے مَدنی آجا آہ مجرِم ترا دنیا سے شہا جاتا ہے
میرے عِصیاں کو مٹاجا مِرے مَدنی آجا آہ مجرِم ترا دنیا سے شہا جاتا ہے
میرے آقا سرِمحشر مرا پردہ رکھنا راز عیبوں کا مرے فاش ہوا جاتا ہے
آؤ اب بَہرِشفاعت مِرے شافع آؤ آہ بدکار عذابوں میں گھرا جاتا ہے
مُسکراکر مِری سرکار مجھے کہہ دو نا آتجھے دامنِ رَحمت میں لیا جاتا ہے
کاش! عطارؔ سے فرمائیں قِیامت میں حُضُور لے مبارَک کہ تجھے بخش دیا جاتا ہے