افسوس! بَہُت دُور ہوں گلزارِ نبی سے کاش آئے بُلاوا مجھے دربارِنبی سے
الفت ہے مجھے گیسوئے خَمدارِ نبی سے اَبرو و پَلک آنکھ سے رُخسارِنبی سے
پَیراہَن و چادر سے عصا سے ہے مَحَبَّت نَعلَیْنِ شَرِیفَین سے دَستارِ نبی سے
بُوصَیری! مبارَک ہو تمہیں بُردِ یَمانی سوغات ملی خوب ہے دربارِنبی سے
بیمار! نہ مایوس ہو تُو حُسنِ یقیں رکھ دم جا کے کرالے کسی بیمارِ نبی سے
تُوخواب میں حَسنین کے صدقے میں خدایا فرما دے مُشَرَّف مجھے دیدارِنبی سے
اللہ کو مانے جو محمد کو نہ مانے لارَیب وہ ناری ہوا اِنکارِنبی سے
وہ نارِ جہنَّم کا ہے حقدار یقینا ہے جس کو عداوت کسی بھی یارِنبی سے
اے زائرِ طیبہ! یہ دعا کر مِرے حق میں مجھ کو بھی بُلاوا ملے دربارِنبی سے
دنیا کے نظاروں سے بھَلا کیا ہو سَروکار عُشَّاق کو بس عشق ہے گلزارِنبی سے
دیوانوں کے آنسو نہیں تھمتے دمِ رخصت جب سُوئے وطن جاتے ہیں دربارِنبی سے
جلووں سے خدایا مِرا سینہ ہو مدینہ آنکھیں بھی ہوں ٹھنڈی مِری دیدارِنبی سے
سنّت ہے سفر دین کی تبلیغ کی خاطِر ملتا ہے ہمیں درس یہ اَسفارِ نبی سے
مستانہ مدینے میں خدا ایسا بنادے ٹکرا کے میں دم توڑ دوں دیوارِنبی سے
صَدقے میں مِرے غوث کے ہو دُور اندھیرا تُربت ہو مُنوّر مِری انوارِنبی سے
جب قبر میں آئیں گے تو قدموں میں گِروں گا خوب آنکھیں ملوں گا میں تو پَیزارِ نبی سے
عطارؔ ہے ایماں کی حفاظت کا سُوالی خالی نہیں جائے گا یہ دربارِ نبی سے