راکب دوشِ شہنشاہِ امم یاحسن ابن علی! کردو کرم
فاطمہ کے لال حیدر کے پسر اپنی اُلفت دو مجھے دو اپنا غَم
اپنے نانا کی محبت دیجئے اور عطا ہو قلب مضطر چشم نم
خو مٹے بے کار باتوں کی رہے لب پہ ذِکرُ اللہ میرے دم بدَم
اے سخی ابن سخی اپنی سخا سے دو حصہ سیّد عالی حَشَم
آل و اصحابِ نبی سے پیار ہے ساری سرکاروں کے در پر سر ہے خم
پیشوائے نوجوانانِ بہشت ہیں محمد کے نواسے لاجرم
یاحسن! ایماں پہ تم رہنا گواہ عبد حق ہوں خادِمِ شاہِ اُمم
آہ! پلے میں کوئی نیکی نہیں عرصۂ محشر میں رکھ لینا بھرم
میرا دل کرتا ہے میں بھی حج کروں ہو عطا زادِ سفر چشم کرم
طیبہ دیکھے اِک زمانہ ہوگیا یاحسن! دِکھلادو نانا کا حرم
جذبہ دو ’’نیکی کی دعوت‘‘ کا مجھے راہِ حق میں میرے جم جائیں قدم
میں سدا دینی کتب لکھتا رہوں یاحسن! دے دیجئے ایسا قلم
دین کی خدمت کا جوش و وَلولہ ہو عنایت یا امامِ محترم
اے شہید کربلا کے بھائی جان دُور ہوں عطارؔ کے رنج و اَلم