گوشِ دِل سے مومنو سن لو ذرا ہے یہ ِقصہ فاطمہ کے عقد کا
پندرہ سالہ نبی کی لاڈلی اور بائیس سال تھی عمرِ علی
عقد کا پیغام حیدر نے دیا مصطفیٰ نے مرحبا اَہلاً کہا
پیر کا دن سَتَّرہ ۱۷ ماہِ رَجب دوسرا سن ہجرتِ شاہِ عرب
پھر مدینہ میں ہوا اعلانِ عام ظہر کے وقت آئیں سارے خاص و عام
اس خبر سے شور برپا ہوگیا کوچہ و بازار میں غُل سا مچا
آج ہے مولا کی دُختر کا نِکاح آج ہے اس نیک اختر کا نکاح
آج ہے اس پاک و سچی کا نکاح آج ہے بے ماں کی بچی کا نکاح
خیر سے جب وقت آیا ظہر کا مسجدِ نبوی میں مجمع ہوگیا
ایک جانب ہیں ابوبکر و عمر اِک طرف عثمان بھی ہیں جلوہ گر
ہر طرف اَصحاب اور اَنصار ہیں درمیاں میں احمدِ مختار ہیں
سامنے نوشہ علیِّ مرتضیٰ حیدرِ کرار شاہِ لَافَتٰی
آج گویا عرش آیا ہے اُتر یا کہ قدسی آگئے ہیں فرش پر
جمع جب یہ سارا مجمع ہوگیا سید الکونین نے خطبہ پڑھا
جب ہوئے خطبے سے فارغ مصطفیٰ عقد زَہرا کا علی سے کردیا
چار سو مثقال چاندی مہر تھا وزْن جس کا ڈیڑھ سو تولہ ہوا
بعد میں خرمے لٹائے لا کلام ماسوا اس کے نہ تھا کوئی طعام
ان کے حق میں پھر دعائے خیر کی اور ہر اِک نے مبارکباد دِی
گھر سے رخصت جس گھڑی زَہرا ہوئیں والدہ کی یاد میں رونے لگیں
دی تسلی احمدِ مختار نے اور فرمایا شہِ اَبرار نے
فاطمہ ہر طرح سے بالا ہو تم میکہ و سسرال میں اَعلیٰ ہو تم
باپ تمہارے اِمام الانبیا اور شوہر اَولیاء کے پیشوا
ماہِ ذِی الحجہ میں جب رُخصت ہوئی تب علی کے گھر میں اِک دعوت ہوئی
جس میں تھیں دس سیر َ جو کی روٹیاں کچھ پنیر اور تھوڑے خرمے بے گماں
اس ضیافت کا ولیمہ نام ہے اور یہ دعوت سنتِ اِسلام ہے
سب کو ان کی راہ چلنا چاہیے اور بُری رسموں سے بچنا چاہیے