سینے میں رہی تخلیۃ شب کی مناجات لفظوں میں ڈھل پائی تہہِ لب کی مناجات
ظاہر ہو وہ کس روز ہنر میں' کسے معلوم! روکے ہوۓ بیٹھے ہیں جو ہم کب کی مناجات؟
اشکوں کی زباں سے ہے ادا ہونے کو بیتاب سینے میں ہے اک اور کسی ڈھب کی مناجات
یہ بات بھی ہم اہلِ جہاں کو نہیں معلوم کب پیش کریں' کون سے مطلب کی مناجات؟
ہر آدمی دنیا کا ہم احساس لگے ہے کچھ اور ہی انداز کی ہے اب کی مناجات
سوگوشیوں میں ہوتی ہے آواز سے عاری ہوتی ہے مہذب سی' مودب کی مناجات
آنسو ہی سب احوال بتا دیتے ہیں اس کے لفظوں میں نہیں ہوتی مقّرب کی مناجات
جب طرزِ ادا سے نہ تھا واقف یہ سخن زاد یاد آئی ہے اک آج مجھے' جب کی مناجات
دنیا کی طرح کی ہے ریاضؔ آس مری بھی میری بھی وہی ہے کہ جو ہے سب کی مناجات