رویے خیر کے جس روز سے ہوۓ چوپٹ ہوا ہے زیست کا سارا نظام ہی تلپٹ
بُنَت ہے طبع میں' غفلت کے تانے بانے کی بساطِ زیست سے جاتی نہیں تبھی سلوٹ
خیال و خواب میں حرص و ہواۓ دنیا ہے عجیب پالے ہوۓ ہیں وجود میں جھنجھٹ
ہے صفحے صفحے پہ جرم و خطا کا گرد و غبار گئی ہے ریگِ گنہ سے کتاب' عمر کی اَٹ
بس ایک ذات اسی کی بندھاتی ہے ڈھارس ہجوم بے کسی سے جب گئی ہو روح اُچٹ
گمان پرستی کا انجام یہ ہی ہونا تھا کہا تھا تجھ سے یہ کس نے کہ واہموں سے لپٹ
جو بے توجہی اُس ذات سے ہے' ٹھیک نہیں ابھی بھی وقت ہے ترتیب' روزِ شب کی الٹ
ریاضؔ ہو متوجہ! اماں میں اس کی آ صدائیں دیتی ہے اس بے نیاز کی چوکھٹ