ہے مدینے کی رہگزر کی طلب تیرے محبوب کے ہے گھر کی طلب
میری درماندگی کو حشر میں ہے اُنؐ کی رحمت بھری نظر کی طلب
بھول جاؤں نہ حرص دنیا میں رگِ جاں سے قریب تر کی طلب
ایک مدحت کروں مکمل جب رہے پھر مدحتِ دگر کی طلب
شانِ شایاں جو تری حمد کے ہوں ہے اُن الفاظِ معتبر کی طلب
جہاں مقبول حمد گو ہوں مقیم خلد میں ہے اک ایسے گھر کی طلب
رائیگاں سعئ فن نہ جاۓ رہے صدف لفظ کو گہر کی طلب
نہ ڈراۓ سیاہ قبر کی رات رہے فردوس کی سحر کی طلب
خواہش اخلاص کی ہے لکھنے میں اور کہے میں ریاضؔ اثر کی طلب