ردیف و قافیہ سے میں نے کی ہے حمد کشید خوشا! یہ صدقۃ انہیؐ لقب' ریاض مجید
وہ خوش ہے تجھ سے تو ہے واشگاف تجھ پہ جہاں رضا ہے اس کی ہر اک گنج معرفت کی کلید
گواہ دھڑکنیں دل کی، ترے کرم کی ہیں ہر ایک سانس کرے ترے لطف کی تجدید
بیان کیا کریں؟ وَا حسرتا! ہزار افسوس جو عمر ضائع گئی اس پہ اب قلق ہے شدید
کرے گا پاس تُو کچھ میری خوش گمانی کا کہ تیری رحمتِ بے حد سے میں نہیں نومید
تُو مجھ کو حشر کے دن بخش دے بغیر حساب مرے کریم ! یہ تیرے کرم سے کیا ہے بعید !
ہو میرا بخت' شفاعت رسول رحمت کی یہ میری اولیں خواہش یہ آخری امید
تُومجھ کو حشر کے دن بخش دے بغیرِ حساب مرے کریم ! یہ تیرے کرم سے کیا ہے بعید
ہو میرا بخت' شفاعت رسول رحمت کی یہ میری اولیں خواہش ' یہ آخری امید
خوشا نصیب ہو جنت میں داخلے کا دن ہزاروں عیدوں سے اُس روز بڑھ کے ہوگی عید
بھلی ہے ان دنوں حُب پروروں کے حلقے میں معاملات ثنا پر ریاضؔ گفت و شنید