کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آ رہا ہے، وہی خدا ہے
تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں، وہ ہے بدلتی ہوئی رتوں میں جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے، وہی خدا ہے
نظر بھی رکھے سماعتیں بھی، وہ جان لیتا ہے نیّتیں بھی جو خانہ لاشعور میں جگمگا رہا ہے، وہی خدا ہے
کسی کو تاج و وقار بخشے، کسی کو ذلت کے ہار بخشے جو سب کے ماتھوں پہ مہر قدرت لگا رہا ہے، وہی خدا ہے
سفید اس کا سیاہ اس کا، نفس نفس ہے گواہ اس کا جو شعلہِ جاں جلا رہا ہے بجھا رہا ہے، وہی خدا ہے