حج کے ایّام کا ہے گھاؤ بہت ہے کسی یاد کا دباؤ بہت
آنکھ تو خشک ہے مگر دل میں آج اشکوں کا ہے بہاؤ بہت
یاد آۓ حطیم کے منظر کہیں اندر ہُوا کٹاؤ بہت
یاد آئیں منیٰ کی راتیں بڑھا اور احساس میں تناؤ بہت
حیف صد حیف تیرے شہر، مرا غفلت آمیز تھا پڑاؤ بہت
نعت گویانِ رفتہ کا کَل سے تیز ہے یاد کا الاؤ بہت
وہی پَل ارجمند تھا جس پل تھا حرم کی طرف جھکاؤ بہت
مالکا! کر کرم' سدا تجھ سے میری جاں کا رہے لگاؤ بہت
وہاں کرنا ریاضؔ کو بھی یاد طیبہ کو جا رہی ہواؤ بہت