ہے جس کی ساری گفتگو وَحیِ خدا یہ ہی تو ہیں حق جس کے چہرے سے عیاں وہ حق نما یہی تو ہیں
سورج میں جن کی ہے چمک جن کا اُجالا چاند میں پھولوں میں جن کی ہے مہک وہ مہ لقا یہی تو ہیں
سارا جہان چھوڑ دے جس مجرمِ دِید کار کو دامن میں ان کے وہ چھپے مشکلکشا یہی تو ہیں
ہر لب پہ جن کا ذِکر ہے ہر دل میں جنکی فکر ہے گاتے ہیں جن کے گیت سب صبح و مَسایہی تو ہیں
چرچا ہے جن کا چار سو ہر ُگل میں جن کا رنگ و بو ہیں حسن کی جو آبرو وہ دِل رُبا یہی تو ہیں
باغِ رسالت کی ہیں جڑ اور ہیں بہارِ آخری مبدا جو اس گلشن کے تھے وہ منتہی یہی تو ہیں
یہ ہیں حبیبِ کبریا یہ ہیں محمد مصطفیٰ دو جگ کو جن کی ذات کا ہے آسرا یہی تو ہیں
جس کی نہ لے کوئی خبر ہوں بند جس پر سارے دَر اس کی یہ رکھتے ہیں خبر اس کی پنا یہی تو ہیں
ان کا مبارک نام بھی بے چین دل کا چین ہے جو ہو مریضِ لادَوا اس کی دَوا یہی تو ہیں
گن گائیں جن کے انبیا مانگیں رُسل جن کی دعا وہ دو جہاں کے مُدَّعٰی صَلِّ علٰی یہی تو ہیں
سجدہ شجر جنہیں کریں پتھر گواہی جن کی دیں دکھ درد اُونٹ بھی کہیں حاجت روا یہی تو ہیں
ہے فرش کا جو بادشا ہے عرش جس کے زیر پا سالکؔ ملا جس سے خدا وہ باخدا یہی تو ہیں