اے چارہ گرِ شوق کوئی ایسی دوا دے جو دل سے ہر اک غیر کی چاہت کو بھلا دے
بس دیکھ لیا دنیا کے رشتوں کا تماشا مخلوق سے امید کے سب دیپ بجھا دے
پاکیزہ تمنائیں بھی لاتی ہیں اداسی ہر ذوقِ طلب، ذوقِ تمنا مٹا دے
کیوں نیک گمانوں کے سہارے پہ جیئے ہے ان سارے فریبوں کو سرابوں کو ہٹا دے
دیکھے یا نہ دیکھے یہ تو محبوب کا حق ہے تو آہ و فغاں کر نہ ہی غیروں کا گلہ دے
دے لذتِ دیدار کی بے ہوشی میں وہ ہوش جو ہستی کی تعریف و تعین گنوا دے
ناسوت و ملکوت و جبروت کے احوال لاہوتی و ہاہوتی دوائر میں ملا دے
اک میں ہوں فقط تو ہو عالمِ ہُو ہو اے حسنِ ازل سارے حجابات اٹھا دے
ہر فعل صفت ذات سے یوں مجھ کو فنا کر کوئی مجھے جانے نہ کوئی مجھ کو صدا دے
میں خود کو بھی خود اپنے سے پھر ڈھونڈ نہ پاؤں یوں آتش سوزاں سے مری راکھ جلا دے
انوار و معانی طبائع سے جدا کر اب عالم واحدات میں گم گشتہ بنا دے
ہوں ترے حجابات کی دہلیز پہ کب سے اک بار ذرا دیکھ لے اک پردہ ہٹا دے
ہے روح کو ہر لمحہ ترے وَصل کی امید آ زیست کی شب کو تو کبھی صبح بنا دے