Aye Charah Gar e Shouq

اے چارہ گرِ شوق کوئی ایسی دوا دے جو دل سے ہر اک غیر کی چاہت کو بھلا دے



بس دیکھ لیا دنیا کے رشتوں کا تماشا مخلوق سے امید کے سب دیپ بجھا دے



پاکیزہ تمنائیں بھی لاتی ہیں اداسی ہر ذوقِ طلب، ذوقِ تمنا مٹا دے



کیوں نیک گمانوں کے سہارے پہ جیئے ہے ان سارے فریبوں کو سرابوں کو ہٹا دے



دیکھے یا نہ دیکھے یہ تو محبوب کا حق ہے تو آہ و فغاں کر نہ ہی غیروں کا گلہ دے



دے لذتِ دیدار کی بے ہوشی میں وہ ہوش جو ہستی کی تعریف و تعین گنوا دے



ناسوت و ملکوت و جبروت کے احوال لاہوتی و ہاہوتی دوائر میں ملا دے



اک میں ہوں فقط تو ہو عالمِ ہُو ہو اے حسنِ ازل سارے حجابات اٹھا دے




Get it on Google Play



ہر فعل صفت ذات سے یوں مجھ کو فنا کر کوئی مجھے جانے نہ کوئی مجھ کو صدا دے



میں خود کو بھی خود اپنے سے پھر ڈھونڈ نہ پاؤں یوں آتش سوزاں سے مری راکھ جلا دے



انوار و معانی طبائع سے جدا کر اب عالم واحدات میں گم گشتہ بنا دے



ہوں ترے حجابات کی دہلیز پہ کب سے اک بار ذرا دیکھ لے اک پردہ ہٹا دے



ہے روح کو ہر لمحہ ترے وَصل کی امید آ زیست کی شب کو تو کبھی صبح بنا دے

Get it on Google Play

midhah-logo-grey© 2025 Midhah