یہ دن میرے نبی کی پیدائش کا دِن ہے یعنی خُدا کی تکمیلِ خواہش کا دن ہے
رحمتِ حق کا آج مُحمّؐد نام پڑا تھا تہذیب و اخلاق کی افزائش کا دن ہے
شہرِ عِلم سے آج زمیں آباد ہُوئی تھی ہر آبادی میں جشنِ دانش کا دِن ہے
پورے سال رہے مُجھ پر اس دن کا سایا برسوں کی صدیوں کی گنجائش کا دن ہے
گلیوں بازاروں کو روشن کرنے والو! روحوں اور ذہنوں کی آرائش کا دِن ہے
حشر کے میداں سے کُچھ کم تو نہیں دُنیا بھی ایسے جِیو جیسے ہر دن پرسش کا دِن ہے
لشکرِ عصیاں بھی ہے کوہِ ذات کے پیچھے بے خبرو اپنے اوپر یورش کا دِن ہے
تقلیدِ سرکارِ دو عالَم کے فیتے سے اپنے اپنے قد کی پیمائش کا دن ہے
کاش اسی دن آئے مُجھ کو مَوت مظفّؔر ! میری لُغت میں تو یہ دن بخشش کادِن ہے