اُتر رہے ہیں فرشتے ، عرب کے اِک گھر میں سمٹ گئے ہیں اندھیرے سحر کی چادر میں
بُلا کے لائی ہیں جنّت سے اپسراؤں کو عروج ایسا میّسر ہُوا ہواؤں کو
فضائے کُفر میں پیغمبری کی آہٹ ہے لبوں پہ رحمت ِ یزداں کی مسکراہٹ ہے
خزاں کی سوکھی ہُوئی شاخ پھُول دیتی ہے بہار، خُوش خبریِ رسُول دیتی ہَے
وُہی رسُول کہ دریا تھا ریگ زاروں میں وہ جس کی گرد بھی بانٹی گئی ستاروں میں
اَزل سے ثبت ہے نام اُس کا لَوحِ عالم پر تھیں جس کے نُور کی مُہریں جبینِ آدم پر
طلسم، جُھوٹے خُداؤں کا جِس نے توڑ دِیا رگوں سے جاہلیّت کا لہُو نچوڑ دِیا
کِیا روانہ صداقت کو ہر طرف جس نے دِیا حیات کو تکمیل کاشرف جس نے
برا جماں ہُوا اِتنی بلند مسند پر کہ لامکاں بھی تھا جس کے پاؤں کی زد پر
جہاں میں آئے براہیمؑ و نوحؑ جِس کے لِیے بھٹک رہی تھی زمانے کی رُوح جِس کے لِیے